ریاضی ایک ایسا مضمون ہے جسے صدیوں سے انسانی فکر کی بلندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر ایک عرصے سے ایک تشویشناک رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے کہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس مضمون سے دور ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو طلبہ کو ریاضی سے متنفر کر رہے ہیں؟ اور اس کے تدارک کے لیے ہمیں کیا اقدامات کرنے ہوں گے؟
سب سے پہلا اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ریاضی کو عمومی طور پر ایک “مشکل” مضمون تصور کیا جاتا ہے۔ اس تصور کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، مگر سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ تدریس کے انداز میں وہ گہرائی اور وضاحت نہیں دی جاتی جو طلبہ کو ریاضی کی اصل خوبصورتی سے روشناس کرا سکے۔ ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹی سطح کے اساتذہ میں سے بیشتر محض سوالات کے جوابات پر زور دیتے ہیں، مگر “تصوری فہم” (conceptual understanding) کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ اساتذہ اور فیکلٹی ممبرز ریاضی کو دیگر مضامین اور عملی زندگی سے جوڑنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ طلبہ کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ ریاضی صرف فارمولوں اور مساوات کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک زبان ہے، جو سائنسی، تکنیکی، اقتصادی، تعلیمی اور سماجی میدانوں میں افکار و عمل کو منظم کرنے کا ذریعہ ہے۔
اگر ہم کمپیوٹر سائنس کی بات کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کمپیوٹر سائنس کا پورا ڈھانچہ ہی ریاضی پر کھڑا ہے۔ مشین لرننگ، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، امیج پروسیسنگ، ڈیٹا سائنس، اور جینریٹو AI جیسے جدید شعبے ریاضی کے بغیر ناقابلِ تصور ہیں۔ اگر کسی طالب علم کو گرادیئنٹ ڈیسینٹ، لاجسٹک ریگریشن، یا ایج ڈیٹیکشن جیسے تصورات کی بنیاد نہ دی جائے تو وہ صرف ایک نقل کنندہ بن کر رہ جاتا ہے، ایک تخلیق کار نہیں۔
ہم اچھے اچھے سائنس دانوں کے بارے میں پڑھتے ہیں مگر سائنس دان نہیں بننا چاہتے۔ سائنس دان کسی ایک تھیورم یا کسی ایک کوڈنگ کو کرنے سے نہیں بنتا بلکہ اس کے لیے “لنک بنانا” آنا چاہیے — ایک سے زیادہ سبجیکٹس کے درمیان تعلق کو سمجھنا۔ اگر فزکس پڑھتے ہیں تو اس سے متعلقہ دیگر سبجیکٹس پر بھی عبور ہونا چاہیے۔ سائنس دان کو پڑھنا آسان ہے، بننے کے لیے ذہنی ساخت (mindset) بنانی پڑتی ہے۔ آج انڈیا تعلیمی میدان میں ہم سے آگے ہے، ٹیکنالوجی میں ہم سے کوسوں آگے ہے، تو اس کی وجہ آپ خود یوٹیوب چینلز کھول کر دیکھ سکتے ہیں ان کا پڑھانے کا معیار اور ہمارا انداز۔ ہم سب یوسف کو چھوڑ کر زلیخا بننے میں لگے ہوئے ہیں؛ میتھمیٹکس کو چھوڑ کر کمپیوٹر سائنٹسٹ بننے نکلے ہیں، اور کمپیوٹر سائنس کو چھوڑ کر میتھمیٹیشن بننے نکلے ہیں۔ ہر کوئی اپنی روٹی خود بنانے کے بجائے نوالہ چھیننے میں لگا ہوا ہے۔ جب تک ہم ریاضی اور کمپیوٹر سائنس، خاص طور پر AI اور مشین لرننگ پر فوکس نہیں کریں گے، آپ ہزار بار اسرائیل پر لعنت بھیجیں، پلٹ کر آپ کے پاس ہی آیگا ۔
اسی طرح، ایجوکیشن کے میدان میں بھی ریاضی کی ایپلیکیشنز انتہائی اہم ہیں۔ طلبہ کی کارکردگی کا تجزیہ، امتحانی نتائج کی تعبیر، اور تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل جیسے امور میں شماریاتی ماڈل اور ریاضیاتی اصولوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بدقسمتی سے، اکثر اوقات تعلیمی ماہرین کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ ریاضی کو اپنے شعبے میں کس طرح شامل کریں۔
یہ مسئلہ یک طرفہ نہیں ہے۔ ریاضی کے اساتذہ اور دیگر مضامین کے ماہرین، دونوں کو اپنی فہم اور تربیت میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسا بین الشعبہ جاتی (interdisciplinary) نظام تعلیم تشکیل دینا ہوگا جہاں ریاضی کو الگ تھلگ مضمون کے بجائے تمام مضامین کی بنیاد کے طور پر پڑھایا جائے۔
اب سوال یہ ہے حل کیا ہے؟
لیجۓ جواب
ریاضی کو صرف سوال حل کرنے کا مضمون نہ بنائیں، بلکہ تصورات کو روزمرہ کی مثالوں سے واضح کریں۔
بین الشعبہ جاتی رابطے: کمپیوٹر سائنس، فزکس، سوشیالوجی، اکنامکس، ایجوکیشن، اور دیگر فیلڈز کے اساتذہ کو ریاضی کے اطلاقات سے آگاہ کریں ۔
تدریسی عملے کی باقاعدہ تربیت ہونی چاہیے تاکہ وہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق تدریس کریں۔
نصاب کو جدید موضوعات جیسے AI، ML، اور ڈیٹا اینالیسس کے ساتھ مربوط کیا جائے۔